ارادہ کب تھا اس کا
ارادہ کب تھا اس کا خود کو دریا میں ڈبونے کا
اسے بس شوق تھا بہتی ندی میں ہاتھ دھونے کا
سروں کی فصل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے
ہے اس کا مشغلہ صحنِ فضا میں زہر بونے کا
یہ تیرا ہی کرم ہے ورنہ کب یارا ہی تھا یارب !
مری نازک مزاجی کو غموں کے بار ڈھونے کا
ہوا کیا گر نگاہِ خامۂ تنقید ہے بے حس
مجھے خود بھی نہیں احساس اب کچھ اپنے ہونے کا
مجھے کب تلخیِ حالات نے موقع دیا جانم
سنہرے نرم رو الفاظ میں تجھ کو پرونے کا
جنابِ میرؔ بھی میری طرح مغموم تھے لیکن
مجھے موقع ہی کب ملتا ہے آزرؔ رونے دھونے کا
ڈاکٹر فریاد آزر
0 comments