ابھی تو سال گزرا تھا
ابھی تو سال گزرا تھا ، ابھی تم ساتھ تھے میرے
اسی خاموش ساحل پر
بہت گم صم سے بیٹھے تھے
کسی تصویر جیسے تھے
اگر میں سچ کہوں جاناں
مری تعبیر جیسے تھے
جہاں پر تم نے کاغذ کی بہت چھوٹی سی ناؤ کو
بڑی چاہت سے، ہمت سے
سمندر میں اتارا تھا
بہت دلکش نظارہ تھا
تمہارے حوصلے پہ کسقدر حیران یہ لہریں
تمہیں حیرت سے تکتیں تھیں
بپھرتی تھیں ، مچلتی تھیں
مگر تم ان سے بےپرواہ
بس اپنی سوچ میں گم تھے
ہماری آنکھ میں تم تھے
تمہیں کچھ یاد ہے
ساحل پے ہم نے گیت گایا تھا
تمہیں دل میں بسایا تھا
جہاں ہم تم ملے تھے
اور پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں
کئی صدیاں گزاری تھیں
مری سانسیں تمہاری تھیں
ابھی تو سال گزرا ہے
کہ جب تم میرے شانوں پر اچانک ہاتھ رکھ کر
چپکے چپکے مجھ سے کہتی تھیں
محبت تو عبادت ہے ، محبت تو سعادت ہے
محبت فیض کا چشمہ جسے دن رات بہنا ہے
ہمیں اک ساتھ رہنا ہے، یہ دکھ سکھ ساتھ سہنا ہے
ابھی کچھ دیر ہی پہلے
تمہاری آنکھ کے جھل مل ستارے
ہم سے کہتے تھے
ہمارا نام لیتے تھے ، ہمیں پیغام دیتے تھے
تمہارا ساتھ نہ چھوٹے ، ہمارا خواب نہ ٹوٹے
مگر یہ سال کیسا ہے
کسی نے بھی نہیں پوچھا
ہمارا حال کیسا ہے
وہی ساحل ، وہی موسم ، وہی رستے، وہی قصّے
وہی سب کچھ تو ہے جاناں
مگر اب تم نہیں میرے
بس اک احساس رہتا ہے
گیا وقت لمحے لمحے آنسوؤں کے ساتھ بہتا ہے
ہمیں اک بات کہتا ہے
تمہارا ساتھ کیوں چھوٹا ؟
ہمارا خواب کیوں ٹوٹا ؟
ابھی تو سال گزرا تھا
مگر اب سوچنے بیٹھوں تو مجھکو ایسا لگتا ہے
کہ جیسے شہر جاناں میں اکیلے ہم نہیں بچھڑے
یہاں تو اک قیامت ہے، یہاں تو گھر کے گھر اجڑے
کسی کی مانگ اجڑی ہے
کسی کی کوکھ خالی ہے
کوئی لاشے پہ بیٹھا سوچتا ہے
اور سوالی ہے
یہ شہر درد ہے، یا کربلا ہے، یا کہ مقتل ہے
ہر اک سو خوف کا عالم، ہر اک پل موت کا پل ہے
وہاں پر کربلا میں خوں بہانا ایک مقصد تھا
وہاں پیاروں کا بڑھ کر جاں لٹانا ایک مقصد تھا
یہاں پر ہر کوئی ناحق کسی کا خوں بہاتا ہے
کسی کا گھر جلاتا ہے ، کسی کا دل دکھاتا ہے
کبھی تم کو رلاتا ہے ، کبھی ہم کو رلاتا ہے
یہ کیسا سال گزرا ہے ، یہ کیسا سال گزرا ہے
ڈاکٹر سکندر شیخ مطرب