ماں رو پڑی ہے سر کو مرے چومتی ہوئی
شاعر : زاہد فخری
بیٹا پردیس سے دیس لوٹ کر ماں کے پاس پہنچا ہے۔ ماں خوش ہے، اس سے زیادہ بڑھ کر فکر مند اور پریشان بھی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ، اس کا بیٹا جو آج اس کے پاس آیا ہے اسے لوٹ کر پھر دوبارہ واپس پردیس جانا ہے، وہ نہیں چاہتی کہ وہ پھر اس کے جانے کے بعد دوبارہ بیٹے کی واپس آنے تک دوبارہ دن گننا شروع کر دے، زاہد فخری نے اسی کی ہی ترجمانی کی ہے حالانکہ لوگ زاہد فخری کی شاعری کو ایک مخولیہ شاعر کی شاعری کہتے ہیں اور اس کی بڑی وجہ ان کی وہ زیادہ تر نظمیں ہیں جو انہوں نے مزاحیہ رنگ میں لکھی ہیں، جن میں ان کی ایک مشہور پیجابی نظم ہے "کدی تے پیکے جاء نی بیگم"۔ میں "آج کا انتخاب" جو زاہد فخری کے کلام سے ہے اور اس کو تیار کرتے ہوئے خود کتنی بار آنسو بہا چکا ہوں کیونکہ ماں کا کوئی بعم البدل نہیں، ماں کے احساسات کو کوئی نہیں لکھ سکتا ماں کے احساسات کی کوئی بھی تحریر ترجمانی نہیں کر سکتی، اس کی عظمت اور اس کی قربانیوں کو صرف مالک حقیقی ہی جانتے ہیں اس لئے ماں کا درجہ اللہ نے سب سے بڑھا کر رکھا ہے، وہ دنیا سے چلے جانے بعد بھی اپنی دعاوں کا اتنا بڑھا خزانہ چھوڑ کر جاتی ہے جو اس کی اولاد کیلئے سرمایہ ثابت ہوتا ہے ،۔۔۔۔
چہرے پہ اپنا دست کرم پھیرتی ہوئی
ماں رو پڑی ہے سر کو مرے چومتی ہوئی
اب کتنے دن رہو گے مرے پاس تم یہاں
تھکتی نہیں ہے مجھ سے یہی پوچھتی ہوئی
رہتی ہے جاگتی وہ مری نیند کے لئے
بچوں کو مجھ سے دور پرے روکتی ہوئی
بے چین ہے وہ کیسے مرے چین کے لئے
آتے ہوئے دنوں کا سفر سوچتی ہوئی
کہتی ہے کیسے کٹتی ہے پردیس میں تری
آنکھوں سے اپنے اشک رواں پونجھتی ہوئی
ہر بار پوچھتی ہے کہ کس کام پر ہو تم
فخریؔ وہ سخت ہاتھ مرے دیکھتی ہوئی
---------------------------------------
پیشکش
سعید جاوید مغل