آج کا انتخاب - شاعر: سیف الدین سیف
آج کا انتخاب
شاعر: سیف الدین سیف
-----------------------------
در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم
تم یہ نہ سمجھنا کہ برا مان گئے ہم
ہم اور ترے حسن تغافل سے بگڑتے
جب تو نے کہا مان گئے، مان گئے ہم
بدلا ہے مگر بھیس غم عشق کا تو نے
بس اے غم دوراں تجھے پہچان گئے ہم
اب اور ہی عالم ہے جہاں کا دل ناداں
اب ہوش میں آئے تو مری جان گئے ہم
-----
مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانۂ محبت
میں اسے سنا کے رووں وہ مجھے سنا کے روئے
-----
جانے اس شہر کا معیار صداقت کیا ہے
بت بھی ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں قران یہاں
ٹوٹ جائے تو اسے دل کا لقب ملتا ہے
چاک ہو جائے تو ہوتا ہے گریبان یہاں
سیف کیا خوب زمانے کی ہوا بدلی ہے
تخت طاوس پہ آ بیٹھے ہیں دربان یہاں
----
کسی کی یاد سیف اور دل کی حالت
گھنا جنگل اکیلی جھونپڑی ہے
----
سارا عالم تنہا تنہا لگتا ہے
کچھ لوگوں کو دیکھ کے ایسا لگتا ہے
ہر صورت اب تجھ سے ملتی جلتی ہے
جو چہرہ ہے تیرے جیسا لگتا ہے
----
کتنا بیکار تمنا کا سفر ہوتا ہے
کل کی امید پہ ہر آج بسر ہوتا ہے
دن گزرتا ہے تو لگتا ہے بڑا کام ہوا
رات کٹتی ہے تو اک معرکہ سر ہوتا ہے
----
چھوٹی چھوٹی باتوں پر نیلام ہوئے
کیسے کیسے قد آور نیلام ہوئے
ننگے سر بیٹھا ہوں اس محفل میں جہاں
اک دستار کے بدلے سر نیلام ہوئے
سیف مری کم علمی میرے کم آئے
بستی کے سب دانشور نیلام ہوئے
----
نہ ابر ہے نہ ہوا نیند کیوں نہیں آتی
برس چکی ہے گھاٹا نیند کیوں نہیں آتی
نئے نئے تھے جدائی کے دن تو بات بھی تھی
وہ دور بیت چکا نیند کیوں نہیں آتی
بچھڑ بھی جاتے ہیں دنیا میں چاہنے والے
چلو ہوا سو ہوا نیند کیوں نہیں آتی
----
کیوں اجڑ جاتی ہے دل کی محفل
یہ دیا کون بجھا دیتا ہے
شور دن کو سونے نہیں دیتا
شب کو سناٹا جگا دیتا ہے
اس کی مرضی ہے وہ راحت میں
رنج تھوڑا سا ملا دیتا ہے
اب تسلی بھی اذیت ہے مجھے
اب دلاسا بھی رلا دیتا ہے
-----------------------------
گزرگاہ خیال فورم