اردو شاعری کے مختلف ادوار- پہلا حصہ - از فیصل حنیف

mathboy
By mathboy

اردو شاعری کے مختلف ادوار

فیصل حنیف

زبان اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کو مانا جاتا ہے- جنہوں نے قریب ایک لاکھ اشعار تخلیق کیے- ان کےدیوان میں مختلف اصناف سخن موجود ہیں- محمد قلی قطب شاہ کا بھتیجا، داماد اور جانشین محمد قطب شاہ بھی ایک صاحب دیوان شاعر تھا- قطب شاہی دور ١٥١٨ سے ١٦٨٧ تک محیط ہے- اس دور میں حکومت کا دارلخلافہ حیدر آباد تھا اور فارسی کے ساتھ ساتھ دکنی اور اردو زبانیں ریاست میں بولی اور سمجھی جاتی تھیں- اس دور میں اور بھی اچھے شاعر ہو گزرے ہیں جن میں ملا وجہی کو خاص اہمیت حاصل ہے جو نہ صرف ایک اچھا شاعر تھا بلکہ نثر نگار کے طور پر بھی اس کا مرتبہ بلند ہے- ملا وجہی کی کتاب 'سب رس' کو ادبی نثر کی پہلی اور اہم کتاب ہونے کا مرتبہ حاصل ہے- ملا وجہی نے بہت سی کتابین تحریر کی تھیں لیکن جو دستبرد زمانہ سے بچ کر ہم تک پہنچ سکی ہیں ان میں 'قطب مشتری'، 'تاج الحقایق ' اور 'سب رس' ہیں- 'قطب مشتری' ایک مثنوی ہے جس میں محمد قلی قطب شاہ کے معاشقے کے حالات درج ہیں- با بایے اردو ڈاکٹر عبد الحق کےخیال میں اگرچہ وجہی نے بہت کچھ دعوی کیا ہے لکن یہ مثنوی کوئی اعلی پایہ کی نہیں ہے- قابل قدر صرف اس لحاظ سے ہے کہ قدیم ہے- تا ہم ملا وجہی کا اصل کام 'سب رس' ہے جو ایک تمثیل ہے-

امیر خسرو کو اگرچہ اردو کا پہلا غزل گو کہا جاتا ہے لیکن یہ بجا معلوم نہیں ہوتا کیونکہ خسرو کی زبان کو لمبی کھینچ تان کے بعد ہی اردو کہا جا سکتا ہے- ان کی غزل کا ایک شعر ذیل میں دیا جا رہا ہے- یہ شعر میں نےمختلف جگہوں پر الفاظ کی معمولی سی ردوبدل کے ساتھ پڑھا ہے-

زحال مسکین مکن تغافل در آیے نیناں بنایے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگایے چھتیاں

یہ زبان ہندوی ہے نہ کہ اردو- امیر خسرو اور قلی قطب شاہ کے درمیان تقریباً ڈھائی سو سال کا فاصلہ ہے- اردو غزل جس کا آغاز دکن سے ہوا تھا, ولی دکنی، جو اردو غزل کے دور اول کے شاعر ہیں اور غزل کے معمار بھی، کے دور تک پہنچتے وقت اس کی عمر تین صدیوں کے لگ بھگ ہو چکی تھی- اردو غزل آج کے دور میں جن خطوط پر قایم ہے، اگرچہ وہ خطوط ولی کے دور سے بہت مختلف ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ولی غزل کی بنیادیں مضبوطی سے تعمیر نہ کرتے تو شاید آج اردو غزل کسی اور جہت پر استوار ہو چکی ہوتی- ولی کی غزل ہندی و فارسی عناصر کا ایک ایسا مرقع بن گئی جس میں دونوں زبانوں کی تمام تر خوبیاں موجود ہیں- اور جب اردو میں غزل اپنی پوری توانائی کے ساتھ لکھی جانے لگی تو بھی اس نے ولی کے انداز سےزیادہ انحراف نہیں کیا-

ولی مجھ دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا
کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ

ولی دکنی سیر و سیاحت کے شوقین تھے اور اسے علم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ مانتے تھے- ولی کا اردو شاعری پہ ایک احسان یہ بھی ہے کہ انہوں نے دہلی کا سفر کیا اور اسکے نتیجے میں وہاں کے بہت سے شاعر جو پہلے فارسی لکھنا باعث صد افتخار سمجھتے تھے، اپنی زبان کی طرف متوجہ ہویے اور اردو غزل کہنے لگے- شاہ مبارک آبرو، شیخ شرف الدین، مصطفیٰ خان، شاہ حاتم، شاہ تسلیم، سعادت خان رنگین، خان آرزو ان میں سے اہم نام ہیں - ان میں سے کچھ شعراء کا ذکر محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب 'آب حیات' میں کیا ہے- ولی ١٧٠٠ میں دہلی آیے تھے- اس سے پہلےکی اردو شاعری کا زیادہ تر حصہ ھزل اور پھکڑ پن پر مشتمل تھا- ایسا لکھنے والوں میں جعفر زٹلی، موسوی خان فطرت اور خواجہ عطا وغیرہ کا نام ملتا ہے- جعفر زٹلی کے ایک ہمسر میر عبد الجلیل بلگرامی ایک نمایاں شخص تھے جو اٹل تخلص کرتے تھے اور وہ بھی ان صاحبان کی طرح ہندی اور فارسی ملا کر اشعار کہا کرتے تھے-

ولی دکنی کے علاوہ جنوبی ہند کے دیگر اردو شعراء میں خارجیت کا عنصر بہت زیادہ ہے- اس لحاظ سے یہ شمالی ہند کے شعراء سے مختلف ہیں جو داخلیت کی طرف رجحان رکھتے ہیں- دکنی شعراء کے ہاں خارجیت کا عنصر بہت نمایاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں غم اور سوز کی وہ کیفیت نہیں ملتی جو میر اور شمالی ہند کے دوسرے شعراء کے ہاں پائی جاتی ہے-

دکن کے بعد دہلی میں اردوشاعری نے بہت ترقی کی اور اپنے عروج پر پہنچ گئی- یوں تو دہلی میں محمد شاہ جس کا دور سترھویں صدی کے پہلے نصف تک محیط تھا، کے زمانے میں اردو شاعری کی جا رہی تھی لیکن سرکاری زبان فارسی تھی اور زیادہ شعراء فارسی ہی کی طرف مائل تھے- اردو یا ریختہ کومقامی زبان ہونے کی وجہ سے توجہ نہیں دی جاتی تھی- غالب جیسا شاعر بھی طرز بیدل میں فارسی شعر لکھنے کو باعث فخر گردانتا رہا- اپنی فارسی شاعری کو مرزا نےہمیشہ وجہ افتخار مانا- مرزا اپنی اردو کی تحریروں کو دوسرے درجے کی چیز سمجھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا اردو کا کلام بہت تھوڑا ہے اور اس میں بھی زیادہ تر وہ ہے جو ضرورت کی وجہ سے لکھا گیا- کچھ مشاعروں میں شرکت کرنے کے لیے اور کچھ دربار سے وابستہ ہونے کی وجہ سے-

ولی دکنی کے دہلی کے دورے سے اردو شاعری کا پہلا دور اختتام کو پہنچا اور دوسرے دور نے جنم لیا جب ولی کی دیکھا دیکھی کچھ شعراء نے اردو میں لکھنا شروع کیا- یہ بات یقینی طور پر حیران کن ہے کہ ایک شاعر کی آمد نے پورے شہر کے شعراء کو مقامی زبان میں شاعری کرنے پر مائل کر دیا- خان آرزو، شاہ حاتم، شاہ مبارک آبرو اس دور کےاہم اور نمایاں نام ہیں- لیکن اس تحریک کے آغاز ہی میں ایہام گوئی جیسی بدعت نے رواج پایا اور یوں شاعری کےخراب ہونےکا سامان ہونے لگا- ہر شاعر کا زیادہ زور اس امر پر لگنے لگا کے ایسے اشعار کہے جائیں جن میں ظاہری اور باطنی معانی میں تفاوت پایا جایے اور باطنی معانی گہرے سے گہرے ہوں- اگرچہ کبھی کبھار کے ایہام میں کوئی عیب نہں ہے لیکن اگر ہر شاعر اپنے ہر شعر ہی میں ایہام پیدا کرنے کی کوشش کرے تو یہ عمل شاعری کے لیے زہر قاتل کے برابر ہوتا ہے- ایہام پیدا کرنے کیلیے شعراء نے غزل کی خوبصورتی کو خیر باد کہہ کر اپنی ساری توجہ مفاہیم پر لگا دی اور اس میں اپنا وقت برباد کرنے لگے کہ کس طرح شعر میں دور کے معانی پیدا کیے جائیں- یہ عمل اس وقت تک جاری رہا جب شاہ حاتم نے چند دوسرے شعراء کی ساتھ مل کر اسے مردود نہ قرار دے دیا- یہ تحریک اتنی زوردار تھی کے بعد کے زمانے میں میر اور سودا تک نے تفنن طبع کے لیےایہام گوئی کی- اس دور کی شاعری میں ابتذال کا عنصر کافی سےزیادہ پایا جاتا ہے- کلام میں تکلف نہیں- جو کچھ سامنےآنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس سے جو خیالات دل میں آتے ہیں زبان سے شعروں میں ڈھال دیتے ہیں- تشبیہات ، استعارے وغیرہ نہیں ملتے- اشعار صاف اور بے تکلف ہیں اور محاورے اور مضمون قدیمی مگر کلام کی سادگی اور بے تکلفی ایسی دل کو بھلی لگتی ہے جیسے ایک حسن خداداد ہو کہ جس کی قدرتی خوبی ہزاروں بناؤ سنگار کا کام کررہی ہو- کچھ اشعار دیکھۓ

آب حیات جا کے کسو نے پیا تو کیا
ماند خضر جگ میں اکیلا جیا تو کیا
ناسور کی صفت ہے نہ ہوگا کبھی وہ بند
جراح زخم عشق کا آ کر سیا تو کیا

(شاہ حاتم)

آتا ہے صبح اٹھ کر تیری برابری کو
کیا دن لگے ہے دیکھو خورشید خاوری کو
اپنی فسوں گری سے اب ہم تو ہار بیٹھے
باد صبا یہ کہنا اس دل ربا پری کو

(خان آرزو)

افسوس ہے کہ مجکو وہ یار بھول جاوے
وہ شوق وہ محبت وہ پیار بھول جاوے
یوں آبرو بناوے دل میں ہزار باتاں
جب تیرے آگے آوے گفتار بھول جاوے

(شاہ مبارک آبرو

شاہ حاتم کو دہلوی رنگ کا موجد سمجھا جاتا ہے- شاہ مبارک کا اصل نام شاہ نجم الدین تھا اور تخلص آبرو - خان آرزو کو اپنا کلام دکھایا کرتے تھے- خان آرزو کا نام سراج الدین خان تھا اور آرزو تخلص کرتے تھے- بقول محمد حسین آزاد اپنے زمانے میں ان سے بڑھ کر شیریں زبان شاعر کوئی نہ تھا- اسی دور کے ایک اور شاعر مرزا مظہر جان جاناں ہیں- ان کا نام شمس الدین تھا- وہ اردو شاعری میں طرز جدید کے موجد تھے- ایہام گوئی کی تحریک ختم کرنے میں ان کی کوششوں کا بھی بہت عمل داخل ہے- ان کی ایک غزل کا مطلع دیکھیے-

ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار
ہاۓ! بس چلتا نہیں، کیا مفت جاتی ہے بہار

پڑھنے والوں کو یہاں شاید ادوار کی تقسیم میں مغالطہ ہو-اس لیۓ یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کی الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب 'مقدمہ شعر و شاعری' میں شاہ حاتم اور شاہ آبرو وغیرہ کو اردو شعراء کے سب سے پہلے طبقہ میں شمار کیا ہے- ممکن ہے کہ اس سے حالی کی مراد شاعری کے ادوار نہ ہوں- کیوں کہ ایک جگہ وہ خواجہ حیدر علی آتش کو 'چوتھے یا پانچویں' طبقہ میں رکھتے ہیں

اردو شاعری کا تیسرا دور وہ ہے جب مرزا سودا، میر تقی میر جیسے شعراء منظر عام پر آیے- یہ غزل کا سنہرا دور ہے- نظیر اکبر آبادی اور میر درد بھی اسی دور کے مشہور شاعر ہیں- یہ دور مشاعروں کا دور تھا- ایہام گوئی سے نجات پانے کے بعد شاعری کو نئی زندگی مل چکی تھی- فارسی کے اثر سے نۓ مضامین اور خیال پیدا کیے گیۓ اور اردو شاعری ترقی کی منازل طے کرتی گئی- اس دور میں غزل کے علاوہ قصیدے، مثنوی، ہجو، واسوخت اور مراثی بھی کافی لکھے گیۓ- دیوان تیار ہونے لگے- انگریزوں کے چھاپا خانہ لانے سے اشاعت میں مزید ترقی ہونی شروع ہو گئی- زبان کا ایک معیا ر بھی بننے لگا- امام بخش ناسخ وہ پہلے شاعر ہیں جنھیں سب سے پہلے زبان کی اصلاح کا خیال آیا- انہنوں نے بہت سے قدیم الفاظ اور محاورے متروک قرار دے دئیے- اگرچہ ناسخ سے پہلے ولی دکنی نے اس طرف توجہ دی تھی- شاہ حاتم، سراج الدین علی خان، آرزو اور مرزا مظہر نے بھی اصلاح زبان کی کوششیں کیں- لیکن اس کام کو سنجیدگی اور جس سختی کے ساتھ ناسخ نے کیا اور کسی نے نہیں کیا- ناسخ کی اصلاح کی کچھ مثالیں جو صاحب جلوہ خضر نے مرتب کی ہیں پیش ہیں-

لفظ وقت مرزا سودا تبدیلی وقت ناسخ
بدلہ کرنا بدلہ لینا
لاگا لگا
جن نے جس نے
راہ گھیر وں راہ روکوں
مجھ سے مجھ
ان نے اس نے
بغل بیچ بغل میں

لفظ وقت میر تبدیلی وقت ناسخ
رنگ جھمکے ہے رنگ جھلکتا ہے
کرے ہے کرتا ہے
کیوں کے سے کس طرح
دیوے دے
دیدار پانا دیدار ہونا

محاورہ وقت میر تبدیلی وقت ناسخ
وہ ضدی چیز ہے وہ جدا چیز ہے
اس کے گیے اس کے جانے کے بعد
زنجیری رہنا قید رہنا
خیال لینا خیال باندھنا
نہیں معلوم مجھ پر بھی نہیں معلوم مجھ کو بھی

محاورہ وقت شاہ نصیر تبدیلی وقت ناسخ
لوہو لہو
لگن لگا دی محبت لگا دی
تک کر کے تک کر

ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کے مطابق " ناسخ نے یہ اصول خود اختیار کیے اور ان کی پابندی اپنے تلامذہ پر لازم کر دی- لیکن اس میں ایک بات قابل غور ہے کہ ناسخ نے قدما کی بعض ترکیبیں اور بعض ایسے الفاظ بھی متروک قرار دئیے جن کا وہ نعم البدل تو کیا بدل بھی پیدا نہ کر سکے"- ناسخ کی اصلاح کے نتیجے میں زبان نکھرنے لگی اور اس میں فارسی اور عربی الفاظ کا استعمال بڑھنے لگا- نۓ نۓ الفاظ و محاورات، بندشیں، تراکیب، تشبیہ و استعارہ اس میں شامل ہو رہے تھے- زبان کو وسعت بھی ملی اور اسکی اصلاح بھی جاری رہی- اس سے پچھلے دور کی شاعری میں سادگی و سلاست پائی جاتی تھی لکین اس دور میں صنعت گری اور آرائش زبان کے نمونے ملتے ہیں- پر گوئی اس دورمیں عام ہوگئی- ہر شاعر اس مرض میں مبتلا ہوگیا- جس سے شاعر وں کے کلام میں رطب و یابس بھی بھرگیا - سوایے میر درد کے کسی نے بھی اپنے کلام کا انتخاب کرنے کی کوشش نہیں کی- چنانچہ اکثر شعراء کے ہاں اچھے شعروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے - زیادہ اشعار بھرتی کے نظر آتے ہیں- خود میر تقی میر کے سات دیوانوں میں سے ان کے بہتر نشتر مشہور ہیں اور بقول محمد حسین آزاد باقی سب میر صاحب کا تبرک ہے یعنی ہزاروں اشعار میں سے صرف بہتر اشعار انتخاب ہیں- آزاد کی اس رایے سےمعمولی سا اختلاف کیا جا سکتا ہے- میر کو خدایے سخن ماننے والے اور محبان میر شاید اس بات کو رد کر دیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کے میر صاحب کی شاعری کا زیادہ حصہ تبرک ہی ہے- جون ایلیا البتہ ایک مختلف رایے رکھتے ہیں- فرماتے ہیں-

شاعر تو دو ہیں میر تقی اور میر جون
باقی جو ہیں وہ شام و سحر خیریت سے ہیں

میر جس دور میں پیدا ہویے وہ ایک افرا تفری کا دور تھا- اورنگ زیب عالمگیر کو وفات پایے سولہ برس ہو چکے تھے- اور ان سولہ برسوں میں بہادر شاہ اول سے لے کر محمد ابراہیم تک سات بادشاہ بدل چکے تھے- ان میں رفیع الدرجات جس کا دور حکومت صرف نو دن تھا اور فرخ سیار جنہوں نے چھے سال حکومت کی- اور اب تخت پر محمد شاہ متکمن تھا - جسے عرف عام میں محمد شاہ رنگیلا کہا جاتا ہے- میر نے اپنے لڑکپن میں طوایف الملوکی اور سیاسی افراتفری کو کھلی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا- مرہٹوں کی یلغار، نادر شاہ کے حملے اور محمد شاہ کی شاہ خرچیاں اوردوسرے ایسے عوامل نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی تھی- نادر شاہ ایرانی نے ١٧٣٩ میں دہلی پر حملہ کیا- اس وقت میر کی عمر سولہ برس تھی- میر نے ان حالات کو اپنے اندر رچا لیا- کچھ ان کے ذاتی حالات نے ان کو حساس بنا دیا تھا چنانچہ بیرونی عوامل کے اثرات ان کی شخصیات پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتے چلے گیے- یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کی شخصیات میں المیہ عناصر کی بہتات نظر آتی ہے-اسی شخصیت سے ان اشعار نے جنم لیا جو آج بھی میر کا نام زندہ رکھے ہویے ہیں- اردو زبان اور دبستان لکھنؤ کے حوالے سے یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ سید محمد امین نیشاپوری جو بعد میں نواب سعادت خان برہان الملک بنے اور جنہوں نے سلطنت اودھ کی بنیاد ڈالی، اسی دور کی پیداوار ہیں-

مرزا سودا اس دور کے ایک نمائندہ شاعر ہیں- سودا دہلی کے رہنے والے تھے- شعر و شاعری کا زمانہ تھا چناچہ چھوٹی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی- سودا عمر میں میر سے دس برس بڑے تھے- شاعری میں پہلے سلیمان قلی خان اور پھر شاہ حاتم سے اصلاح لیتے تھے- شاہ حاتم کی شاگردی میں تھوڑا وقت گزرا تھا کہ سودا نے شاعری کے میدان میں اپنے استاد کو پیچھے چھوڑ دیا- آخری عمر میں دہلی چھوڑ کر فرخ آباد سے ہوتے ہے فیض آباد چلے گیے- بعد میں لکھنؤ جانے کا اتفاق ہوا اور وہیں وفات پائی- مرزا سودا کے کلام میں قصیدے ہیں، مراثی، واسوخت، قطعات، مثنویاں، اور غزلیں ملتی ہیں- لیکن ان کی وجہ شہرت ان کی ہجویں ہیں- یہ بات شاید کم لوگوں کو معلوم ہو کہ سودا نے فارسی اور اردو کے علاوہ پنجابی میں بھی کلام لکھا ہے- خان آرزو کے کہنے پر فارسی کے بجایے اردو کو اختیار کیا- شاہ عالم گیر نے کچھ عرصہ کیلیے ان کی شاگردی اختیار کی لیکن ان سے ایک بات پر خفا ہو گیے اور بار باربلانے پر بھی پھر کبھی نہ گیے- قدردان موجود تھے تو کچھ پرواہ نہ تھی- لکھنؤ کے نواب شجاع الدولہ نے سنا تو انہیں ہر قسم کا لالچ دے کر بلابھیجا لکین سودا نے دہلی چھوڑنا گوارا نہ کیا اور یہ رباعی لکھ کر بھیج دی

سودا پیے دنیا تو بہر سو کب تک
آوارہ این کوچہ بان کو کب تک
حاصل یہی اس سے نہ کہ دنیا ہووے
بالفرض ہوا یوں بھی تو پھر تو کب تک

سودا کی شہرت کی ایک وجہ ان کی ہجو گوئی ہے- جس کسی سے ناراض ہوتے اس کی ایسی ہجو لکھتے جو چند روز میں سارے شہر میں مشہور ہو جاتی اور جس کے بارے میں لکھا جاتا وہ منہ چھپاتا پھرتا-

اس دور کے ایک اور اہم شاعر میر درد ہیں- درد کا دیوان مختصر ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے رطب و یابس والے اشعار کو خود اپنے کلام سے خارج کر دیا جس کے نتیجے میں عمدہ انتخاب بچ گیا- جس دور میں اہل حرفہ اور شعراء شہر چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے تھے درد نے دہلی چھوڑ کر کہیں جانا گوارا نہیں کیا- اپنے زمانے کے حالات کو اپنے اندر رچا کا شاعری تخلیق کی - اور یوں وہ اردو شاعری میں ایک خاص طرز فکر کے بانی اور خاتم قرار پایے اور ان کا کلام اپنے انداز کا واحد کلام ٹھہرا-

وایے نادنی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

ایک اور نام میر سوز کا ہے- ان کا نام سید محمد میر تھا اور سوز تخلص- پہلے میر تخلص کرتے تھے لیکن جب میر تقی میر کی شہرت ہوئی تو بدل دیا- سادہ اور بے تکلف زبان استعمال کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اپنی شاعری سناتے ہویے شعر کے مزاج کے مطابق حرکت بھی کیا کرتے تھے- رونے کا ذکر آتا تو رونے لگتے اور ہنسنے کا ذکر آتا تو ہنسنے لگتے- بقول آزاد ان کی زبان عجب میٹھی ہے- ایک نمونہ پیش خدمت ہے

میں کس کے ہاتھ لکھ بھیجوں میں صاحب سلام اپنا
مجھے تو بھول جاتا ہے ترے دھڑکے سے نام اپنا

اس دور کے ایک اور شاعر میر حسن ہیں جو غلام حسین ضاحک کے صاحبزادے ہیں- یہ وہی ضاحک ہیں جن کی شان میں مرزا سودا نے اپنی زیادہ تر ہجو گوئی کی- دلچسپ بات یہ ہے کہ میر حسن سودا کے شاگرد تھے- میر حسن کا نام اب صرف انکی مثنوی سحر البیان کے حوالے سے جانا جاتا ہے- بد قسمتی سے ان کی غزل گوئی اس مثنوی کے پیچھے چھپ گئی ہے- محمد حسین آزاد ان کے اشعار کو غزل کے اصول میں گلاب کے پھول بتلاتے ہیں- مولانا عبد الحئی گل رعنا میں غزل میں ان کے مرتبے کو بلند مانتے ہیں- حسرت موہانی کے خیال میں ان کی زبان میر تقی میر، سودا اور درد کی طرح ہے- سادگی اور شیرینی وہی ہے جو میر کے کلام کی جان ہے -

مجھ کو عاشق کہہ کے اس کے رو برو مت کیجیو
دوستو گر دوست ہو تو یہ کبھو مت کیجیو
میں تو یونہی تم سے دیوانہ سا بکتا ہوں کہیں
آگے اس کے دوستو یہ گفتگو مت کیجیو

مشہور مرثیہ گو شاعر میر انیس، میر حسن کے پوتے ہیں

اردو شاعری کا چوتھا دور وہ ہے جس میں تیسرے دور کے شعراء کے شاگردوں کی کھیپ جوان ہو کر لکھنے لگی- اس زمانے میں زیادہ زور گرمی کلام پر رہا- شعراء میں معرکے ہونے لگے اور زبان کی سند لائی جانے لگی- اس میں غالب اور ذوق جیسے شعراء سامنے آیے- اب سلطنت مغلیہ کا چراغ ٹمٹما رہا تھا دبستان دہلی کے کئی شاعر دہلی چھوڑ کر لکھنؤ اور دوسرے شہروں کو چلے گیے اور دبستان لکھنؤ اپنی انفرادیت بنانے لگا-

دہلی میں اردو شاعری کے آخری دور میں غالب اور ذوق کے شاگردوں کا زمانہ شامل ہے- اس دور سے پہلےشاعری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی اس لیے آخری دور میں کوئی نئی چیز نہیں ملتی - اس پورے دور میں صرف ایک ہی منفرد شاعر ہے اور وہ ہے مرزا خان داغ- حالی کی شاعری کو اصلاح پسندی لے ڈوبی- اس دور کے بعد نیچرل شاعری کا رواج ہو گیا اور نظم عروج پکڑنے لگی

******

جاری ہے

Log in or register to post comments

More from Qatar Living

Qatar’s top beaches for water sports thrills

Qatar’s top beaches for water sports thrills

Let's dive into the best beaches in Qatar, where you can have a blast with water activities, sports and all around fun times.
Most Useful Apps In Qatar - Part Two

Most Useful Apps In Qatar - Part Two

This guide brings you the top apps that will simplify the use of government services in Qatar.
Most Useful Apps In Qatar - Part One

Most Useful Apps In Qatar - Part One

this guide presents the top must-have Qatar-based apps to help you navigate, dine, explore, access government services, and more in the country.
Winter is coming – Qatar’s seasonal adventures await!

Winter is coming – Qatar’s seasonal adventures await!

Qatar's winter months are brimming with unmissable experiences, from the AFC Asian Cup 2023 to the World Aquatics Championships Doha 2024 and a variety of outdoor adventures and cultural delights.
7 Days of Fun: One-Week Activity Plan for Kids

7 Days of Fun: One-Week Activity Plan for Kids

Stuck with a week-long holiday and bored kids? We've got a one week activity plan for fun, learning, and lasting memories.
Wallet-friendly Mango Sticky Rice restaurants that are delightful on a budget

Wallet-friendly Mango Sticky Rice restaurants that are delightful on a budget

Fasten your seatbelts and get ready for a sweet escape into the world of budget-friendly Mango Sticky Rice that's sure to satisfy both your cravings and your budget!
Places to enjoy Mango Sticky Rice in  high-end elegance

Places to enjoy Mango Sticky Rice in high-end elegance

Delve into a world of culinary luxury as we explore the upmarket hotels and fine dining restaurants serving exquisite Mango Sticky Rice.
Where to celebrate World Vegan Day in Qatar

Where to celebrate World Vegan Day in Qatar

Celebrate World Vegan Day with our list of vegan food outlets offering an array of delectable options, spanning from colorful salads to savory shawarma and indulgent desserts.