جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے
جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے
یاں بھی پیدا ہویے پھر آپ پہ مرنے والے
ہے اداسی شب ماتم کی سہانی کیسی
چھاون میں تاروں کی نکلتے ہیں سنورنے والے
ہم تو سمجھے تھے کے دشمن پہ اٹھایا خنجر
تم نے جانا کی ہمیں تم پہ ہیں مرنے والے
صبر کی میرے، مجھے داد ذرا دے دینا
او میرے حشر کے دن فیصلہ کرنے والے
عمر کیا ہے ابھی کم سن ہیں، نہ تنہا لیتیں
سو رہیں پاس میرے خواب میں ڈرنے والے
ریاض خیر آبادی ١٨٥٣ - ١٩٣٤
0 comments