جنگل می برستی بارش
تاروں بھرے آسماں
اور نکھری رات میں
بارش میں بھیگتے جنگل
جیسی زلفیں لیے
چاندنی جیسے سفید بازو
پھیلاے
کون ہے جو
میری خواب گاہ میں
چلا آیا ہے
کوئی خیال ہے کہ حقیقت
کہہ نہیں سکتا
جوبھی ہے اتنا حسیں ہے
کہ ميں اس سے
لحظہ بھر نظریں
ہٹا نہں سکتا
چاہوں بھی تو ميں
ہوش میں آ نہیں سکتا
تاروں بھرے آسماں
اور نکھری رات میں
بارش میں بھیگتے جنگل
جیسی زلفیں لیے
چاندنی جیسے سفید بازو
پھیلاے
کون ہے جو
میری خواب گاہ میں
چلا آیا ہے
بس اتنی خبر ہے
کہ وہ پیکررنگ و نور
بارش میں بھیگتے جنگل
جیسی زلفیں لیے
چاندنی جیسے سفید بازو
پھیلاے
اس طرح آیا ہے کہ
اسے کے اٹھتے ہوے
قدموں سے
پیانو پر لہراتی کسی
دلبر کی مخروطی انگلیوں
کی طرح
موسیقی کا سیلاب
امڈا چلا آتا ہے
جوبھی ہے اتنا حسیں ہے
کہ ميں اس سے
لحظہ بھر نظریں
ہٹا نہں سکتا
چاہوں بھی تو ميں
ہوش میں آ نہیں سکتا
کوئی خیال ہے کہ حقیقت
کہہ نہیں سکتا