گمنام سپاھی - Nasri nazm by Farhad
کتنا عجیب ہے، ایک ‘‘ گمنام سپاھی ‘‘ کے نام سے پہچانا جانا
میری خواہش تھی کہ میں بھی شہرت پاتا
میرا بھی ایک نام ہوتا
میدان جنگ میں فتح مندی پاتا ، دشمن کی قوت کا فخر و گھمنڈ خاک میں ملا دیتا
میں نے دشمن کو تو دیکھا ہی نہیں، صرف اس کا نعرہ ھی سنا تھا
میں اس کے گرنیڈ سے زمین پر گر پڑا
مسخ شدہ چہرے کے ساتھ، بالکل ناقابل شناخت حالت میں
اسی لیے مجھے اسی حالت میں دفن کرکے، ایک ‘‘ نامعلوم سپاہی‘‘ کے نام سے
سر بلند کردیا گیا، ایک ‘‘ گمنام سپاہی!‘‘، بے نام روح
اس مختصر سے لمحے میں، میں نے اپنی مختصر سے زندگی پر نگاہ ڈالی
ان سب کو دیکھا، جنھیں میں جانتا تھا اور جو مجھے جانتے تھے
میں!، چھوٹا سا بچہ، ‘‘ سپاہی، سپاہی‘‘ کا کھیل کھیلتے بوئے
کھیلتے کھیلتے جوان ہوا، یہاں تک کہ ایک ‘‘ اصل سپاہی‘‘ بن گیا
میرا یہی سپاہی ہونا ہی میری پہلی اور آخری محبت تھی
محبت!جسے میں نے تھامے رکھا اور جس نے مجھے سمیٹے رکھا
لیکن میں!، میں گمنام سپاہیوں کی صفوں میں گم ہو گیا
جنت کے فرشتوں جیسی سفید قبا اوڑھے، اڑنے والے گھوڑے پر سوار
سنہری چمکدار جگہوں سےگزرتا ، میں آسمانوں کی بلندوں میں
خود کو تلاش کر رہا تھا، لیکن
میں بھی تو دوسروں ہی کی طرح تھا
ایک تابوت میں بند، مسخ شدہ لاش
جس نے اپنی زندگی گزاری ہی نہیں تھی
اس مختصر سے لمحے میں
وہ میں ہی تو تھا جس کے پرخچے اڑ گئے تھے
میں رضاکاروں میں خود شامل ہوا تھا
امن بہترین نہیں ہے ، ہم فراموش کر چکے ہیں کہ
زندگی ‘‘جہد مسلسل‘‘ ہے، اور اس کا
پہلا معرکہ ‘‘ زندگی ‘‘ ہی ہے
میں چاہتا تھا کہ میں بھی جانا جاؤں
وہ خود کو سکھانا چاہتا تھا کہ
وہ تمام محسوسات ، جن سے میں محروم رہا
خود محسوس کروں
میں وہ سب کچھ برتنا چاہتا تھا، جو
میرے پاس تھا، لیکں میں آگاہ نہ تھا
میں جنگ میں اپنے آپ کو دوبارہ شناخت نہ کر سکا
یہ میرے محسوسات نہ تھے، جنھیں میں نے محسوس کیا
یہ میری زندگی نہ تھی جیسے میں نے کھو دیا تھا
یہ تو صرف ایک ‘‘ گمنام سپاہی ‘‘ تھا
فقط ایک ‘‘ گمنام سپاہی !‘‘۔