دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن <<<
FROM THE WRITER'S DESK...
میں اپنے پرانے محلے میں کھڑا حسرت کے ساتھ ان ویران گلیوں کو دیکھ رہا تھا۔یہ گلیاں تو گرمی کی تپتی ہوئی دوپہر میں بھی ویران نہ ہوتی تھیں۔کوئی نہ کوئی ہم نفس گھر سے نکلتا اور کسی یار غار کو ڈھونڈ ہی لیتا۔ پھر زمانے بھر کی باتیں ،دنیا بھر کے قصے، اپنی پرانی کہانیاں، ختم نہ ہونے والی داستانیں شروع ہوجاتیں۔ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا رفیق اس محفل ناتمام کا حصہ بنتا چلا جاتا۔
مگر آج تہذیب بدل گئی، وقت بدل گیا، مشاغل بدل گئے۔ فکر معاش نے فرصت کی گھڑیوں کو بہت مختصر کردیا ہے۔ ان مختصر گھڑیوں سے بھی تنہائی کے جو لمحات مستعار لیے جاسکتے تھے، اسے ٹی وی کی ختم نہ ہونے والی مصروفیت نے چھین لیا ہے۔ آج جس شخص سے ملیے اسے وقت نہیں ملتا۔ وقت کیسے ملے؟ ’’بندہ معاش‘‘ اپنی توانائی کا ایک ایک قطرہ صرف کرنے کے بعد جب گھر پہنچتا ہے توساز و آواز، خوف و تجسس، طنز و مزاح اور علم وتفریح کے خزینے سمیٹے ایک رفیق شب اس کا منتظر ہوتا ہے۔
ٹی وی کی یہ رنگینی اسے کچھ سوچنے کا موقع نہیں دیتی۔اسے مطالعے کا موقع نہیں دیتی۔ دوستوں کی محفلوں کو آباد کرنیکی فرصت نہیں دیتی۔قرابت داروں اورپڑوسیوںکے گھر جانے کی مہلت نہیں دیتی۔ اسے تنہائی کے وہ لمحات نہیں دیتی جب وہ اپنے بارے میں غور کرسکے۔ اپنی دنیا اور آخرت کے بارے میں غور کرسکے۔ملک اور ملت کے بارے میں غور کرسکے۔
بظاہر آج کا انسان بہت خوشحال ہے۔ وہ بہت خوش ہے۔وہ اچھے گھرو ںمیں رہتا ہے۔ ٹی وی ، اے سی اور سواری کی نعمت سے مالا مال ہے۔اس نے اپنی خوشیوں او ر تفریح کے لیے ایک سامان جمع کررکھا ہے۔مگر آج کے انسان نے خود کو کھودیا ہے۔ وہ ایک ایسا جانور بن گیا ہے جس کے ہر طرف ہری ہری گھاس رہتی ہے۔مگر وہ سوچنے والا ، تنہائی میں بیٹھ کر حقائق پر غور کرنے والا انسان نہیں رہا۔
مجھے معلوم ہے کہ اب فرصت کے وہ رات دن لوٹ کر نہیں آسکتے ، مگر کوئی ہم ذوق تنہائی کے چند لمحات غورو فکر اور خود احتسابی کے لیے نکال لے تو اس فقیر کی صدا رائگاں نہیں جائے گی۔