گھبرا کے پی گیا
میں تلخی ء حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلفِ یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
دنیائے حادثات ہے ایک درد ناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہےتھے کہ پی لیجیے حضور !
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر صدیقی
0 comments