میں جاں بہ لب تھا پھر بھی اصولوں پہ اَڑ گیا
میں جاں بہ لب تھا پھر بھی اصولوں پہ اَڑ گیا بجھتا ہوُا چراغ ہواؤں سے لڑ گیا خالی پڑے ہوئے ہیں پرندوں کے گھونسلے ایسی ہَوا چلی کہ ہر اِک پیڑ جَھڑ گیا کس کس کا ساتھ دے کوئی میلے کی بھیڑ میں پھر یوں ہوُا کہ وہ بھی اچانک بچھڑ گیا میں نے قدم بڑھائے جو صحرا کی دھوپ میں گھبرا کے میرا سایہ میرے پاؤں پڑ گیا اس آئینے کے عکس ہی ٹیڑھے تھے سب کے سب مجھ کو یہ وہم تھا میرا چہرہ بِگڑ گیا محسنؔ دلِ غریب کی ویرانیاں تو دیکھ کیسا نگر تھا جو تیرے ہاتھوں اُجڑ گیا
0 comments