مجھے سہل ہو گئیں منزلیں - مجروح سلطانپوری
مجھے سہل ہو گئیں منزلیں ، وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ، ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
وہ لجائے میرے سوال پر کہ اُٹھا سکے نہ جھکا کے سر
اُڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
وہی بات جو نہ وہ کہہ سکے مرے شعر و نغمہ میں آ گئی
وہی لب نہ میں جنہیں چھو سکا قدحِ شراب میں ڈھل گئے
وہی آستاں ہے وہی جبیں، وہی اشک ہے وہی آستیں
دل زار تو بھی بدل کہیں کہ جہاں کے طور بدل گئے
تجھے چشم مست پتہ بھی ہے کہ شباب گرمئی بزم سے
تجھے چشم مست خبر بھی ہے کہ سب آبگینے پگھل گئے
اُنھیں کب کے راس بھی آ چکے تیری بزمِ ناز کے حادثے
اب اُٹھ کے تری نظر پھرے جو گِرے تھے گِر کے سنبھل گئے
میرے کام آ گئیں آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں
بڑھیں اس قدر مری منزلیں کہ قدم کے خار نکل گئے
0 comments