حاصل عمر سوا موت کے جب کچھ بھی نہیں
حاصل عمر سوا موت کے جب کچھ بھی نہیں
چار دن کے لیے یہ عیش و طرب کچھ بھی نہیں
نہ تو خلوت ہی میسر ہے نہ کچھ لطف کی بات
کیوں بلایا ہے مجھے آپ نے جب کچھ بھی نہیں
نہ وہ احباب نہ وہ لوگ نہ وہ شمع نہ بزم
صبح دم وہ اثر جلسہ شب کچھ بھی نہیں
کوئی اکبر سا بھی دیوانہ نظر آیا ہے کم
پہروں روتا ہے جو پوچھو تو سبب کچھ بھی نہیں
اکبر الہ آبادی
0 comments