سرخ بہار
اب کے بہار کو ہمارے زخم ملیں گے
سرخ گھاس اُگے گی سرخ پھول کھلیں گے
اب کے پیڑ پی چکے ہیں اس قدر لہو ۔ ۔
اب کے یہ سجیں گے سرخ برگ و بار سے
اب کے تو دیکھے ہیں ابر نے وہ مناظر ۔ ۔
سرخ آندھیاں اُٹھیں گی ہر اک کہسار سے !!
سرخ اوس سے بھیگے گا یوں سحر کا بدن
بیٹھی ہو سیج پہ کوئی اُجڑی ہوئی دلہن
اُڑیں گے سرخ پنچھی انگار کی صورت
جھرنوں میں سرخ حنا کا روئے گا بانکپن !!
سرخ ساحلوں پہ ٹوٹ کے آئینگی کشتیاں
نیلے سمندروں کے سرخ طوفان میں
سرخ چاندنی اُترے گی زرد ماہتاب سے
آسیب خودکشی کا لےئے ہرمکان میں !!
رات کے دامن پہ ستارے بھی سرخ ہونگے
سرخ بارشیں گریں گی سرخ آسمان سے
مگس کے سرخ ہاتھ ، بھنوروں کے سرخ پر
پوچھے گی صبا سرخ تتلیوں کو دیکھ کر
جہانِ رنگ و بُو کے واحد باغبان سے ۔ ۔
یہ رنگ کبھی اُترے گا میرے گلستان سے؟؟
فارسؔ مغل