درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہائے ہائے
اردو زبان میں چار رثائی نظمیں ایسی ہیں جن کوئی نظیر نہیں- ان چار کے علاوہ بے شمار رثائی نظمیں لکھی گئیں اور خوب لکھی گئیں، لیکن وقت کی دھول نے انھیں چھپا دیا، لوگ انھیں بھول گیے- لیکن یہ چار نظمیں اپنی مثال آپ بن گئیں- ان میں سے پہلی رثائی نظم جو تکنیکی اعتبار سے غزل ہے غالب کے قلم سی نکلی ہے- کہا جاتا ہے کہ یہ غزل مرزا نے اپنی محبوبہ کے مرنے پر لکھی تھی- جس کی ردیف 'ہائے ہائے' ہے- دوسری غزل نما رثائی نظم 'لازم تھا دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور' مرزا نے زین العابدین عارف کے مرنے پر لکھی تھی- اسکا شمار مرزا کی بہترین غزلوں میں ہوتا ہے- تیسری نظم مرزا غالب کا مرثیہ ہے جو حالی نے لکھا ہے 'غالب نکتہ داں سے کیا نسبت، خاک کو آسماں سے کیا نسبت'- چوتھی نظم علامہ اقبال کی ہے جو انہوں نے داغ کے دنیا سے گزر جانے پر لکھی تھی
مرزا کا ان کی محبوبہ کے غم میں لکھا ہوا غزل نما مرثیہ پیش خدمت ہے- اس کا ہر ایک شعر اپنے اندر بے پناہ درد اور کرب چھپائے ہوئے ہے
درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
تیرے دل میں گر نہ تھا آشوب غم کا حوصلہ
تو نے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ہائے ہائے
کیوں میری غمخوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوستداری ہائے ہائے
عمر بھر کا تو نے پیمان وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے
گلفشانی ہائے ناز جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے
شرم رسوائی سے جا چھپنا نقاب خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
خاک میں ناموس پیمان محبت مل گیے
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسم یاری ہائے ہائے
ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا
دل پر اک لگنے نہ پایا زخم کاری ہائے ہائے
کس طرح کاٹے کوئی شب ہاے تار برشکال
ہے نظر خو کردہ اختر شماری ہائے ہائے
گوش مہجور پیام و چشم محروم جمال
اک دل تسپر یہ نا امیداری داری ہائے ہائے
عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہائے ہائے