ملا نصير الدين
ساري دنيا انہيں پير سمجھتي ہے مگر وہ خود کو جوان سمجھتے ہيں، ديکھنے ميں سياست دان نہيں لگتے اور بولنے ميں پير نہيں لگتے، قد اتنا ہي بڑا جتنے لمبےہاتھ رکھتے ہيں، چلتے ہوئے پائوں يوں احتياط سے زمين پر رکھتے ہيں کہيں بے احتياطي سے مريدوں کي آنکھيں نيچے نہ آجائيں،اتنا خود نہيں چلتے جتنا دماغ چلاتے ہيں، دور سے يہي پتہ چلتا ہے کہ چل رہے ہيں، يہ کسي کوپتہ نہيں ہوتا آرہے ہيں جارہے ہيں، سياست ميں انکا وہي مقام ہے کو اردو ميں علامتي افسانے کا، خاندان کے پہلے صبغتہ اللہ اول کے سر پر پگ باندھي گئي اور وہ پہلے پاگارہ پير کہلائے، يہ بھي اس خاندان کے چشم و چراغ ہيں جس کي چشم بھي چراغ ہے، بچپن ہي سے پردے کے اس قدر حق ميں تھے کہ 1944 ميں جب کراچي ريلوے اسٹيشن سے انگلينڈ روانہ ہوئے تو تو پردے کي وجہ سے پتہ ہي نہيں چل رہا تھا کہ جارہے ہيں يا جارہي ہے، 1952 ميں يوں پاکستان کو واپس آئے، جيسے پاکستان کو واپس لائے ہوں، کسي نے کہا انگلينڈ وہ جگہ ہے جہاں سب سے زيادہ دھند ہوتي ہے، کہا انتي دھند تھي کہ جگہ نظر نہ آئي۔
پہلے کالعدم مسلم ليگ کے صدر بنے، پھر مسلم ليگ کے کالعدم صدر بنے، پھر مسلم ليگ بن گئے، اس لئيے اب دوڑ وہ رہے ہيں ہوتے ہيں اور سانس مسلم ليگ کي پھولنے لگتي ہے،وہ بڑے پائے کے سياست دان ہيں، جس کي ايک وجہ تو يہ ہے کہ ہمارے ہاں چھوٹ پائے کے سياست دان ہوتے ہيں نہيں، حالانکہ چھوٹے پائے مہنگے ہوتے ہيں، وہ پاکستاني سياست کي اقوام متحدہ ہيں اور اقوام متحدہ وہ جگہ ہے جہاں دو چھوٹے ملکوں کا مسئلہ ہوتو مسئلہ غائب ہوجاتا ہے، چھوٹی اور بڑي قوم کا مسئلہ ہوتو چھوٹي قوم غائب ہوجاتي ہے اور اگر بڑي قوموں کا مسئلہ ہو تو اقوام متحدہ غائب ہوجاتي ہے۔
ڈاکٹر محمد يونس بٹ نے سياست اور ملا نصير الدين كيا قصه لكها هے