پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
اسے آہ دامن باد نے سر شام ہی سے بجھا دیا
مجھے دفن کر چکو جس گھڑی تو یہ اس سے کہیو کہ اے پری
وہ جو تیرا عاشق زار تھا، تہہ خاک اس کو دبا دیا
دم غسل سے مرے پیشتر، اسے ہمدموں نے یہ سوچ کر
کہیں جاوے اس کا نہ دل دہل، میری لاش پر سے ہٹا دیا
نہ تو تاب ہے تن زار میں، نہ قرار ہے غم یار میں
مجھے سوز عشق نے آخرش، یونہی مثل شمع گھلا دیا
مری آنکھ جھپکی تھی ایک پل، مرے دل نے چاہا کہ اٹھ کے چل
دل بے قرار نے او میاں، وہیں چٹکی لے کے جگا دے
کہا نامہ بر نے جواب دو، خط شوق عاشق زار کا
وہیں خط کو آگ میں ڈال کر یہ کہا کہ خط کو جلا دیا
کہا آنے دیجو نہ غیر کو، کہا ہم بلائیں گے شوق سے
تمہیں رشک ہو تو نہ آؤ تم، یہی کہہ کے ہم کو اٹھا دیا
میں نے دل دیا، میں نے جان دی، مگر آہ تو نے نہ قدر کی
کسی بات کو جو کبھی کہا، اسے چٹکیوں سے اڑا دیا
پس مرگ قبر پہ اے ظفر، کوئی فاتحہ بھی پڑھے کہاں
وہ جو ٹوٹی قبر کا تھا نشاں، اسے ٹھوکروں سے اڑا دیا
بہادر شاہ ظفر